موجوں میں مزہ آتا ہو جسے گرداب سے لرزاں کیا ہوگا
موجوں میں مزہ آتا ہو جسے گرداب سے لرزاں کیا ہوگا
جو بندۂ ساحل بن کے رہے لذت کش طوفاں کیا ہوگا
جو عمر کٹے بے کیفی میں بے لطفی میں بے رنگی میں
اس قصے کی سرخی کیا ہوگی اس زیست کا عنواں کیا ہوگا
روداد قفس کیا خاک کہیں جب تک بھی رہے یہ فکر رہی
انجام نشیمن کیا ہوگا انجام گلستاں کیا ہوگا
ہے اپنا جنون عشق فزا ہر قید مکاں سے بالاتر
ممنون گلستاں کیا ہوگا پابند بیاباں کیا ہوگا
بیگانۂ بیم و رجا ہو کر تقدیر بنائیں آپ اپنی
یہ فکر دلیل پستی ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
واں ضد ہے کہ بے مانگے نہ ملے یاں حسن طلب بھی ہے بدعت
رحمت کے لئے بھی شرطیں ہوں تو عفو کا ارماں کیا ہوگا
یہ طرز جہاں یہ خون وفا یہ ہم نفسوں کی بے مہری
تکمیل تمنا ہو نہ سکی تو زیست کا ساماں کیا ہوگا
رنگین جوانی ہی کب تھی خیر اب تو بڑھاپا آیا ہے
چالیس کے پیٹھے میں آخر اب بدرؔ غزل خواں کیا ہوگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.