موسم گل ہے نہ دور جام و صہبا رہ گیا
موسم گل ہے نہ دور جام و صہبا رہ گیا
لے گئی سب کو جوانی میں اکیلا رہ گیا
جانے کیا ہو کر نگاہوں سے اشارہ رہ گیا
ہائے خون آرزو جب ہل کے پردا رہ گیا
عشق کی رسوائیاں وہ حسن کی بد نامیاں
ہم بھلا بیٹھے مگر دنیا میں چرچا رہ گیا
اک سراپا ناز تنہائی مزار عاشقاں
ہائے وہ عالم کہ جب خود حسن تنہا رہ گیا
رعب حسن آداب عشق ان کی حیا کا احترام
اٹھ گئی چلمن تو اب پردا ہی پردا رہ گیا
کچھ بڑھانا تھا مذاق بندگی کا حوصلہ
پھیر لی تو نے نظر شرما کے سجدا رہ گیا
ان کے جلووں نے ہزاروں کو نوازا اے شفیقؔ
آہ اپنی بے زباں نظروں کو شکوا رہ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.