موسم گل ساتھ لے کر برق و دام آ ہی گیا
موسم گل ساتھ لے کر برق و دام آ ہی گیا
یعنی اب خطرے میں گلشن کا نظام آ ہی گیا
وہ نگاہ مست اٹھی گردش میں جام آ ہی گیا
یعنی وقت امتیاز خاص و عام آ ہی گیا
جو اٹھا کرتے تھے اظہار تقدس کے لیے
ان لرزتے کانپتے ہاتھوں میں جام آ ہی گیا
نور و ظلمت پر تبسم کفر و دیں پر قہقہے
زندگی کو نشۂ عمر دوام آ ہی گیا
پاسباں کرتے رہے سرگوشیاں ہی اور کچھ
ان کی محفل سے بہ عز و احترام آ ہی گیا
جانے کن نظروں سے دیکھا آج ساقی نے مجھے
میں تو یہ سمجھا کہ مجھ تک دور جام آ ہی گیا
اب اسی کو زندگی کہہ لیجئے یا صبح مرگ
آنکھ کھولی تھی کہ سر پر وقت شام آ ہی گیا
ترک مے کو مدتیں گزری ہیں لیکن محتسب
ساقئ مہوش اگر آتش بہ جام آ ہی گیا
ہائے یہ عالم کہ اب ترک وفا کے بعد بھی
دل میں ہوک اٹھی نہ اٹھی لب پہ نام آ ہی گیا
لذت رنگینئ اشعار کیا کہئے شکیلؔ
کچھ نہ کچھ احباب کو لطف کلام آ ہی گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.