موسموں کے دکھ نے دریا سے روانی چھین لی
موسموں کے دکھ نے دریا سے روانی چھین لی
وقت کے آسیب نے ہم سے جوانی چھین لی
ہم تو پھر بھی بے ہنر تھے ہجرتوں کے خوف نے
طائروں سے خواہش نقل مکانی چھین لی
پہلے میرے گرد اس نے خوف کے جالے بنے
پھر مرے سر سے ردائے آسمانی چھین لی
آئنے کا ٹوٹ جانا اک علامت ہے کہ آج
زندگی نے ہم سے اپنی ہر نشانی چھین لی
ذہن کے سارے دریچوں کو مقفل کر دیا
ضبط نے مجھ سے مری جادو بیانی چھین لی
مجھ کو جن آنکھوں نے جینے کا ہنر بخشا نظیرؔ
آج ان آنکھوں نے مجھ سے زندگانی چھین لی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.