موت آندھی ہے مگر ان کو صبا لگتی ہے
موت آندھی ہے مگر ان کو صبا لگتی ہے
زندگی دشت کے ماروں کو سزا لگتی ہے
دھیرے دھیرے جو سسکتا ہے دیا کمرے میں
یہ یقیناً کہیں شعلے کو ہوا لگتی ہے
چند سکوں کے عوض لوگ دعا دیتے ہیں
کیا یوں خیرات کے بدلے میں دعا لگتی ہے
رقص کرتا ہے تڑپتا ہے مناتا ہے اسے
چاندنی جھیل کے پانی سے خفا لگتی ہے
فقر کہتا ہے کہ شیشے کو تراشا جائے
نیک بننے میں تو بس ایک قبا لگتی ہے
گھر کی دیوار کا سایہ بھی جلاتا ہے بدن
یہ جگہ اب مجھے آسیب زدہ لگتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.