موت بھی آتی نہیں ہجر کے بیماروں کو
موت بھی آتی نہیں ہجر کے بیماروں کو
کیا مصیبت ہے ذرا دیکھنا بیچاروں کو
نالۂ دل نے ہمارے تو اثر کم نہ کیا
اور معذوری زیادہ ہوئی دل داروں کو
گو ہیں جنت میں مزے لیک نہیں بھولنے کا
ہونٹ کا چاٹنا تجھ لب کے نمک خواروں کو
اس سے بہتر نہیں کوئی چیز سوا بوسے کے
رونمائی میں جو دیویں ترے رخساروں کو
کبھی رونا کبھی سر دھنا کبھی چپ رہنا
کام کرنے ہیں بہت سے ترے بے کاروں کو
میں نے کاغذ تری تصویر کا عیسیٰ کو دیا
نسخہ جوں دیتے ہیں بیمار سب عطاروں کو
پتھروں ہی پہ تجلی ہے تو ہم غیرت سے
آنکھوں ہی میں لیے مر جائیں گے نظاروں کو
سب نمونہ ہے حقیقت کا جہاں تک ہے مجاز
ناس جو کرتے ہیں گلزاروں کی دیواروں کو
یہ غزل خدمت نواب کی ہے میر رضاؔ
اور اک دوسری کہہ دیجئے ہم کاروں کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.