موت بھی ہم سے خفا ہو جیسے
موت بھی ہم سے خفا ہو جیسے
زندگی ایک سزا ہو جیسے
دل کے ویرانے میں وہ یوں آئے
پھول صحرا میں کھلا ہو جیسے
اپنی بربادی پہ شرمندہ ہوں
یہ بھی میری ہی خطا ہو جیسے
اہمیت یہ ہے تمہارے خط کی
میری قسمت کا لکھا ہو جیسے
دل مرا یوں ہوا پارہ پارہ
آئنہ ٹوٹ گیا ہو جیسے
تم مجھے ہاتھ اٹھا کر کوسو
کوئی مصروف دعا ہو جیسے
ان کے چہرے پہ وہ اشکوں کی نمی
پھول شبنم سے دھلا ہو جیسے
بے وجہ مجھ سے بگڑ بیٹھے ہیں
میں نے کچھ ان کو کہا ہو جیسے
نہ توجہ نہ پیام اور سلام
مجھ سے وہ روٹھ گیا ہو جیسے
موج بے باک کی مانند ہیں وہ
کوئی طوفاں میں پلا ہو جیسے
وہ خفا ہو کے بہت شرمائے
آئنہ دیکھ لیا ہو جیسے
ایسے انجان بنے وہ طلعتؔ
میرا شکوہ نہ سنا ہو جیسے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.