موت کا ڈر ناخدا کچھ بھی نہیں
موت کا ڈر ناخدا کچھ بھی نہیں
زندگی کا مسئلہ کچھ بھی نہیں
آگ پانی اور ہوا کچھ بھی نہیں
صرف مٹی تھی بنا کچھ بھی نہیں
کچھ لہو کا رنگ اور کچھ آب و گل
مجھ میں تو خود ساختہ کچھ بھی نہیں
زندگی کی اس حسیں پازیب میں
صرف گھنگرو کے سوا کچھ بھی نہیں
دید کی خواہش کی موسیٰ نے وہاں
لیکن ان پر بھی کھلا کچھ بھی نہیں
ہو نہ جب تک ہجر کی مشکل ردیف
وصل کا تو قافیہ کچھ بھی نہیں
بے یقینی ہے یقینی کیفیت
ہاتھ اٹھے ہیں پر دعا کچھ بھی نہیں
ہاں اگر مقصود ہو دیدار یار
تب خلا اور فاصلہ کچھ بھی نہیں
اب زمیں پر میں اگر موجود ہوں
اس میں تو میری خطا کچھ بھی نہیں
جس طرح رخسارؔ گزری زندگی
موت کا یہ مرحلہ کچھ بھی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.