موت سے جنگ کر رہا ہے کیا
موت سے جنگ کر رہا ہے کیا
اب بھی جینے کا حوصلہ ہے کیا
جا رہے ہو نظر چرائے ہوئے
میرے ہاتھوں میں آئنہ ہے کیا
اشک آنکھوں کے خشک ہونے لگے
اس نے وعدہ کوئی کیا ہے کیا
زندگی تو گزر ہی جائے گی
غیر کا کوئی آسرا ہے کیا
مسکرانے لگیں مری آنکھیں
آج ویرانہ دل کشا ہے کیا
گھل گیا ہے نشہ ہواؤں میں
در مے خانہ وا ہوا ہے کیا
کتنی سنجیدگی ہے چہرے پر
تو بھی ہر وقت سوچتا ہے کیا
آج دشمن ہے کل تو اپنا تھا
راز ہر ایک کھولتا ہے کیا
شور کرنے لگی ہیں زنجیریں
کوئی دیوانہ آ گیا ہے کیا
مسجدوں میں نمازیوں کا ہجوم
پھر کوئی حادثہ ہوا ہے کیا
بات کرتا ہے منزلوں کی بہت
راہبر یہ نیا نیا ہے کیا
اب تو خاموش ہو کے بیٹھ ندیمؔ
اس قدر کوئی بولتا ہے کیا
- کتاب : سراب دشت امکاں(غزلیات) (Pg. 37)
- Author : ڈاکٹر امتیاز ندیم
- مطبع : مکتبہ نعیمہ صدر بازار(مئو ناتھ بھنجن) (2020)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.