مضحکہ آؤ اڑائیں عشق بے بنیاد کا
مضحکہ آؤ اڑائیں عشق بے بنیاد کا
اک جدا مدفن بنائیں تیشۂ فرہاد کا
واہ واہ کیا رنگ بدلا گلشن ایجاد کا
سایۂ گل پر گماں ہونے لگا صیاد کا
بہہ چلا ہے اشک حسرت المدد اے برق یاس
یہ بھی اک دانہ ہے میرے خرمن برباد کا
کس نگاہ گرم سے دیکھا ہے اس نے وقت قتل
آہ ٹھنڈی پڑ گئی دم گھٹ گیا فریاد کا
غنچہ غنچہ خوف سے مجھ کو نظر آیا قفس
پتے پتے پر ہوا دھوکا کف صیاد کا
یہ سمجھ لیجے کسی شاعر کے دل کا ٹوٹنا
ٹوٹ جانا ہے طلسم عالم ایجاد کا
ہو نہ احساس اسیری تو رہائی ہے محال
ایسے قیدی نام تک لیتے نہیں میعاد کا
ضعف کی یہ ہمتیں ہیں ناتوانی کا یہ زور
ٹکڑے ٹکڑے کر دیا دامن مری فریاد کا
اس سخنور سے مجھے فیض سخن ہے اے حفیظؔ
نام نامی ہے گرامی جس جہاں استاد کا
- کتاب : Kulliyat-e-Hafeez Jalandhari (Pg. 171)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.