مضموں نہیں ہے صاف نو آہنگ راز ہے
مضموں نہیں ہے صاف نو آہنگ راز ہے
ہر حرف شعر کا لب خاموش ساز ہے
میں آپ کی لگائے ہوں اپنے جگر میں آگ
سینہ میں ورنہ سوز نہ دل میں گداز ہے
اک بے خودی نے ڈالی ہیں لاکھوں ہی گتھیاں
جو بات ہے وہ بھید ہے جو شے ہے راز ہے
واں حسن سے بنے ہیں وہ اک پیکر جمال
یاں اک مرقع حسرت نظارہ باز ہے
وہ ہیں کہ بات ہی نہیں سنتے غریب کی
میں ہوں کہ دفتر گلہ ہائے دراز ہے
پہلے تھا سر میں حب وطن کا مرے جنوں
اب خبط یاوہ گوئی دور و دراز ہے
اچھا ہے وہ شباب کہ کچھ سوجھتا نہ تھا
اب ہر قدم پہ خوف نشیب و فراز ہے
اک سلسلہ ہے نا متناہی خیال بھی
جتنا دراز کیجیے اس کو دراز ہے
ہر وقت کشمکش میں ہیں امید و بیم کے
احمق ہیں جن کو خواہش عمر دراز ہے
اک آنکھ خوف تیرگیٔ قبر میں ہے بند
اور ایک شوق عرصۂ محشر میں باز ہے
ہے ذرہ ذرہ پرتو مہر جمال یار
دنیا نہیں ہے خانۂ آئینہ ساز ہے
کچھ آہ و نالہ کا نہیں کھلتا اثر مگر
اتنا کہ اس میں سوز ہے اور اس میں ساز ہے
نادرؔ سناؤ اک غزل عاشقانہ اور
اور اک گلاس ابھی تو در توبہ باز ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.