مہر و ماہ و انجم کا کچھ نشاں نہیں ملتا
مہر و ماہ و انجم کا کچھ نشاں نہیں ملتا
اڑ رہا ہوں برسوں سے آسماں نہیں ملتا
روشنی کا امکاں بھی اب یہاں نہیں ملتا
اکا دکا جگنو بھی ضو فشاں نہیں ملتا
تن پہ سایہ کرنے کو سائباں تو ملتا ہے
روح کے سلانے کو آشیاں نہیں ملتا
دل کی روشنی لے کر دلبر ازل کو میں
ڈھونڈھتا ہوں مدت سے اور نشاں نہیں ملتا
میرے دل کی دھڑکن ہی گرچہ اس کا مسکن ہے
ڈھونڈھتا ہوں جب دل میں کچھ نشاں نہیں ملتا
آرزو میں پھولوں کی پھر رہا ہوں صحرا میں
ریت کے مسافر کو گلستاں نہیں ملتا
چور چور رہتا ہے ہر دم آئنہ دل کا
بے وفا زمانے میں مہرباں نہیں ملتا
ملتا جلتا رہتا ہے نا مراد دنیا سے
اپنے جاں نثاروں سے بد گماں نہیں ملتا
اس کا ملنا جلنا ہے غایت و غرض لے کر
بندۂ غرض ہے وہ رائیگاں نہیں ملتا
بستیوں کے دامن میں ڈھیر ہیں مکانوں کے
مضطرب تمنا کو لا مکاں نہیں ملتا
بستیوں کے پربت ہیں قافلے ہیں لوگوں کے
آدمی کوئی ان میں جان جاں نہیں ملتا
آدمی کی کثرت سے آدمی پریشاں ہے
آدمی کا اس پر بھی کچھ نشاں نہیں ملتا
جس کے پاس یکجا ہوں دین و دانش و دولت
ایسے مرد کامل کا آستاں نہیں ملتا
دفن ہو گئے کتنے عیش کی تمنا میں
عیش اگر ملا بھی تو جاوداں نہیں ملتا
سچ ہے دشت امکاں ہے ایک دھندلا نقش پا
نقش جس سے رہرو کا کچھ نشاں نہیں ملتا
علم و فن کے پروانو یہ بھی کیا قیامت ہے
رازؔ کو یہاں کوئی رازداں نہیں ملتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.