محور پہ بھی گردش مری محور سے الگ ہو
محور پہ بھی گردش مری محور سے الگ ہو
اس بحر میں تیروں جو سمندر سے الگ ہو
اپنا بھی فلک ہو مگر افلاک سے ہٹ کے
ہو بوجھ بھی سر کا تو مرے سر سے الگ ہو
میں ایسا ستارہ ہوں تری کاہکشاں میں
موجود ہو منظر میں نہ منظر سے الگ ہو
دیوار نمائش کی خراشوں کا ہوں میں رنگ
ہر لمحہ وہ دھاگہ ہے جو چادر سے الگ ہو
اس آتش افسوں کو کوئی کیسے بجھائے
جس آگ میں گھر جلتا ہو وہ گھر سے الگ ہو
چھتری رکھوں اس ابر سیہ گام کی خاطر
کوفی بھی نہ ہو اور بہتر سے الگ ہو
رب اور تمنائے دوئی وہم بشر ہے
ہم زاد تو کیا عکس بھی داور سے الگ ہو
دامن میں وہ دنیا ہے جو دنیا سے جدا ہے
آئے وہ قیامت بھی جو محشر سے الگ ہو
پارے کی طرح شہر کا بکھراؤ ہے تفضیلؔ
ایسا کوئی بتلاؤ جو اندر سے الگ ہو
- کتاب : Teksaal (Pg. 47)
- Author : Tafzeel Ahmad
- مطبع : kasauti Publication (2016)
- اشاعت : 2016
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.