میلوں میں گھومتے رہے تنہائی بیچ دی
میلوں میں گھومتے رہے تنہائی بیچ دی
پھر یوں ہوا کہ چشم تماشائی بیچ دی
سودا کبھی خسارے کا اس نے کیا نہیں
شہرت خرید لی کبھی رسوائی بیچ دی
بے نام سے تعلق خاطر کے واسطے
اک اجنبی کے ہاتھ شناسائی بیچ دی
اچھا کیا کہ گرمئ بازار دیکھ کر
اونچے لگے جو دام تو گویائی بیچ دی
اب بندش نگاہ کی قیمت بہت بڑھی
لوگوں نے جا کے اپنی ہی بینائی بیچ دی
دعوے تمہارے عشق کے باطل ہوئے سبھی
پاؤں کے زخم دشت کی پہنائی بیچ دی
اب جاں بہ لب ہیں شہر کے بیمار بے شمار
زر کی ہوس میں سب نے مسیحائی بیچ دی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.