میں پیٹ سے اپنے خود ہی کپڑا اٹھا رہا ہوں بتا رہا ہوں
میں پیٹ سے اپنے خود ہی کپڑا اٹھا رہا ہوں بتا رہا ہوں
میں اپنے بچوں کو آج بھوکا سلا رہا ہوں بتا رہا ہوں
بساط سے بڑھ کے خرچ خود کو کیا ہے میں نے مری خطا ہے
اور اب میں چادر سے پاؤں اپنے چھپا رہا ہوں بتا رہا ہوں
انا کو اپنی میں اپنے ہاتھوں سے ہار دوں گا یا مار دوں گا
غرور کو اپنے خاک میں بھی ملا رہا ہوں بتا رہا ہوں
میں ضبط کی آخری حدوں کو نہ جا سکوں گا میں رو پڑوں گا
میں بات کرتے ہوئے تبھی کپکپا رہا ہوں بتا رہا ہوں
یہ خوش لباسی یہ رکھ رکھاؤ سوا دکھاوے کے کچھ نہیں ہے
میں ایک ٹوپی ہی سب کے سر پہ گھما رہا ہوں بتا رہا ہوں
میں ظلمت شب کا شکوہ ہرگز نہیں کروں گا ڈٹا رہوں گا
میں اپنے حصے کی شمع یارو جلا رہا ہوں بتا رہا ہوں
میں جانتا ہوں جواب تیرا نہیں میں ہوگا عجیب کیا ہے
سوال کرتے ہوئے تبھی ہچکچا رہا ہوں بتا رہا ہوں
مجھے تو سب کچھ ہی یاد ہے میں سحر کا بھولا نہیں ہوں یارو
میں شام ڈھلنے سے پہلے ہی گھر کو جا رہا ہوں بتا رہا ہوں
لے میری جانب سے آج بدلے کی انتہا سن مرا اعلاں سن
میں اپنی نظروں سے آج تجھ کو گرا رہا ہوں بتا رہا ہوں
وجود میرا ہے خاک اور اس نے خاک میں ہی ہے خاک ہونا
میں خاک کو آسماں کی جانب اڑا رہا ہوں بتا رہا ہوں
یہ شعر تو مجھ سے بیٹھے بیٹھے یوں ہی ہوئے ہیں کہے نہیں ہیں
رضیؔ میں مصرعے کے ساتھ مصرع لگا رہا ہوں بتا رہا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.