میں سوچتا ہوں جسے آشنا بھی ہوتا ہے
میں سوچتا ہوں جسے آشنا بھی ہوتا ہے
مگر خیال سے وہ ماورا بھی ہوتا ہے
سوائے شاعری زنداں میں کچھ کیا ہی نہیں
وگرنہ بند قفس کھولنا بھی ہوتا ہے
زیادہ تر میں عناصر سے دور دیکھوں اسے
وہ خاک و آتش و آب و ہوا بھی ہوتا ہے
میں ٹوٹ جاتا ہوں اور دور جا بکھرتا ہوں
اگر جدائی کا صدمہ ذرا بھی ہوتا ہے
ہر ایک راستے پر ہم تو جا کے دیکھیں مگر
جدھر نہ جانا ہو وہ راستا بھی ہوتا ہے
اسی کے در کے فقط ہو کے رہ گئے ہیں ہم
سنا ہے جب سے کہ دروازہ وا بھی ہوتا ہے
ظفرؔ وہاں کہ جہاں ہو کوئی بھی حد قائم
فقط بشر نہیں ہوتا خدا بھی ہوتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.