میرا اک اک حرف پیمانہ مری ایذا کا ہے
میرا اک اک حرف پیمانہ مری ایذا کا ہے
تشنگی کی وسعتیں ہیں یہ کرم دریا کا ہے
بن گئے صحرا میں گھر لیکن گھروں میں آج تک
رو وہی وحشت کی ہے موسم وہی صحرا کا ہے
چاہے بک جاؤں چکاؤں گا مگر سب کا حساب
مجھ پہ قرض امروز کا ہے مجھ پہ حق فردا کا ہے
گرد و باد دشت کا احساں کہ ہے تو ساتھ ساتھ
اس سفر میں کون مجھ آوارہ و تنہا کا ہے
جائے بھی کوئی نیا رہرو تو اب جائے کدھر
بیکراں اک سیل ہر جانب نقوش پا کا ہے
کم نہ تھی کل بھی افق تابی مگر وہ کل کی تھی
آج ابھرنے والا سورج آج کی دنیا کا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.