میرے افکار نے جس شے سے جلا پائی ہے
میرے افکار نے جس شے سے جلا پائی ہے
عشق کی زندہ دلی حسن کی رعنائی ہے
شاخ گل میں جو نزاکت جو لہک آئی ہے
تیری باہوں کی لچک ہے تیری انگڑائی ہے
پھر ابھرنے لگے نہ خستہ ماضی کے نقوش
لوح دل پر کوئی تصویر ابھر آئی ہے
غم و اندوہ کے اس دور میں کیا عیش و نشاط
شادیانے ہیں خوشی کے نہ وہ شہنائی ہے
زندگی ہے کہ بلاتی ہے تقاضوں کی طرف
دل گرفتار خم زلف چلیپائی ہے
رہیے خاموش تو حالات بگڑ جاتے ہیں
اور کچھ کہیے تو اندیشۂ رسوائی ہے
دل وہ کیا ہے کہ نہ ہو جس میں محبت کا جنون
سر وہ کیا ہے کہ جو بے وضع جبیں سائی ہے
میں کہ درپیش ہے مجھ کو سفر دور و درواز
اور اک وہ ہیں کہ ان کو غم تنہائی ہے
کوئی مرہم نہ مداوا کوئی پھاہا نہ دوا
زیست اوڑھے ہوئے زخموں کی ردا آئی ہے
ظرف و ہمت سے سوا دی نہیں جاتی تکلیف
اتنا غم دیتے ہیں جتنی کہ شکیبائی ہے
تاجؔ یہ زور بیاں جو بھی سخن میں کچھ ہے
اثر تربیت شیون بینائی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.