میری بے حوصلگی اس سے سوا اور سہی
میری بے حوصلگی اس سے سوا اور سہی
اور چاہو تو محبت کا صلا اور سہی
یوں بھی کچھ کم تو نہ تھے اتنی بہاروں کے ہجوم
ان میں شامل ترے دامن کی ہوا اور سہی
مجھ کو اصرار کہاں ہے کہ محبت جانوں
آج سے معنی انداز و ادا اور سہی
طلب درد میں دل حد سے گزرتا کب تھا
تم نے پوچھا تھا کہ اور اس نے کہا اور سہی
اب تو ہر شہر میں اس کے ہی قصیدے پڑھیے
وہ جو پہلے ہی خفا ہے وہ خفا اور سہی
ہم اسی رحمت و زحمت کے ہیں عادی یا رب
جیسی بھی ہے اسی دنیا کی فضا اور سہی
سبق بے گنہی تشنۂ تکمیل بھی تھا
اک نیا فلسفۂ جرم و سزا اور سہی
آج آپ اپنے محاسن کا بیاں کر لیجے
محفل تذکرۂ اہل وفا اور سہی
کیا ضروری ہے کہ انداز بہاراں رکھے
اب جو کچھ اور ہے رفتار صبا اور سہی
اب بہت شور سہی کل تو کوئی پرکھے گا
ان صداؤں میں فقیروں کی نوا اور سہی
کیوں نہ عالیؔ سے علائی پہ غزل لکھوائے
ایک بیدادگر رنج فزا اور سہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.