میری املاک سمجھ بے سر و سامانی کو
میری املاک سمجھ بے سر و سامانی کو
ایک مدت سے میں لاحق ہوں پریشانی کو
اب یہ معمول کے غم مجھ کو رلانے سے رہے
سانحے چاہئیں اشکوں کی فراوانی کو
لوٹ آئے گی جو افلاک سے فریاد مری
کون بخشے گا سند میری ثنا خوانی کو
پیش منظر بھی وہی تھا جو پس ذات رہا
غم کی میراث ملی آنکھ کی حیرانی کو
سینہ صد چاک کرو دل سے نہ اغراض کرو
قید رہنے دو ابھی دشت میں زندانی کو
موت بھی دیکھ کے انگشت بدنداں ہے علیؔ
مرقد زیست سے لپٹی ہوئی ویرانی کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.