میری مٹی کا نسب بے سر و سامانی سے
میری مٹی کا نسب بے سر و سامانی سے
کام کچھ اس کو ہوا سے نہ طلب پانی سے
میرے اطراف نگاہوں کی یہ دیوار نہ کھینچ
اور آوارہ ہوا جاتا ہوں نگرانی سے
اپنے آئینے سے توڑ آ کے مرا آئینہ
اپنے آئینے کو بھر کر مری حیرانی سے
ہم جو اک عمر لگا دیتے ہیں پاس آنے میں
کیسے لمحوں میں بچھڑ جاتے ہیں آسانی سے
ہے یہی وقت کہ پتھر سے خدا پیدا ہو
دیکھ اب نور ٹپکنے لگا پیشانی سے
عشق کو ہے یہی اک صورت اظہار نصیب
جو بھی کہنا ہے کہے چاک گریبانی سے
شہر ہو جاتا ہے پہلے تو جنون ناکام
توڑتا ہے پھر اسے سنگ بیابانی سے
فرحتؔ احساس اسی جہل سے کر پھر سے رجوع
تیرے حق میں یہی بہتر ہے ہمہ دانی سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.