میری تربت پر چڑھانے ڈھونڈتا ہے کس کے پھول
میری تربت پر چڑھانے ڈھونڈتا ہے کس کے پھول
تیری آنکھوں کا ہوں کشتہ رکھ دے دو نرگس کے پھول
ایک دن ہو جاؤں گا تیرے گلے کا ہار میں
سونگھنے کو مت لیا کر ہاتھ میں جس تس کے پھول
بستر گل پر جو تو نے کروٹیں لیں رات کو
عطر آگیں ہو گئے اے گل بدن سب پس کے پھول
وصل مہوش کا دلا مژدہ ہمیں دے ہے چراغ
جھڑتے ہیں ہر دم شب ہجراں میں منہ سے اس کے پھول
کچھ خبر بھی ہے تجھے چل فاتحہ کے واسطے
آج ہیں اے شوخ تیرے عاشق مفلس کے پھول
اور ہی کچھ رنگ ہے سینے کے داغوں کا مرے
اس روش کے ہیں کہاں تیرے سپر پر مس کے پھول
تو ہے وہ جو مہر و مہ شام و سحر تجھ پر سے وار
سیم و زر کے پھینکتے ہیں بیچ میں مجلس کے پھول
کیا نوا سنجی کریں اے ہم صفیران چمن
آ گئی فصل خزاں گلشن سے سارے کھسکے پھول
ہیں مہ و خورشید جو شام و سحر تجھ پر سے وار
سیم و زر کے پھینکتے ہیں بیچ میں مجلس کے پھول
کس نے سکھلائی ہے تجھ کو یہ روش رفتار کی
مٹ گئے قالیں کے جو تیرے قدم سے گھس کے پھول
پھلجھڑی سے کم نہیں مژگان اشک افشاں تری
موتیا کے دیکھنا جھڑتے ہیں منہ سے اس کے پھول
رنگ خوب و زشت میں کیوں فرق سمجھے ہے نصیرؔ
خار بھی تو ہے اسی کا ہیں بنائے جس کے پھول
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.