میری وحشت مجھ سے پوچھے گی تو بتلاؤں گا میں
میری وحشت مجھ سے پوچھے گی تو بتلاؤں گا میں
سوانگ جو تم نے سکھائے وہ بھی دکھلاؤں گا میں
کس نے دیوانہ بنایا نام بتلاؤں گا میں
دشت و دریا سے بھی آگے بات پھیلاؤں گا میں
خواب تم دکھلاؤ گے تو خواب دکھلاؤں گا میں
دونوں جانب خواب کے پرچم بھی لہراؤں گا میں
نارسائی کا کوئی شکوہ نہیں شکوہ یہ ہے
کیا خیال خام ہی سے دل کو بہلاؤں گا میں
اے شب فرقت تمہیں مجھ سے شکایت تو نہیں
گر چلے جاؤ گے تم بھی کتنا گھبراؤں گا میں
اک سموم گرد آسا چل رہی ہے چار سو
چار سو بارش لیے تم دیکھنا آؤں گا میں
اک اندھیرا چار جانب بارشوں کے درمیاں
بارشوں کے درمیاں شعلہ سا لہراؤں گا میں
پاؤں ہیں آمادۂ سیر و سفر منزل بہ دست
کیا تمہیں لگتا ہے اب بھی لوٹ کر آؤں گا میں
راستے مسدود جب ہو جائیں گے ختم سفر
آخری پتھر پہ اپنا نام لکھواؤں گا میں
رفتگاں آئندگاں کے درمیاں کیا ربط ہے
میرؔ صاحب سے یہ پوچھوں گا تو بتلاؤں گا میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.