میز پر رکھی ہوئی دنیا میں خود کو ڈھونڈھتا تھا
میز پر رکھی ہوئی دنیا میں خود کو ڈھونڈھتا تھا
علم کے نشے میں تھا ٹھوکر پہ ٹھوکر کھا رہا تھا
اس نے اک وسعت بھری نظروں سے بوسہ کیا لیا تھا
میں تھا چاروں سمت میرے آسماں تھا اور خدا تھا
آنکھ کے زنداں میں کاٹی میں نے میعاد جدائی
اس نے جب آواز دی میں تھک تھکا کر سو چکا تھا
میری آنکھوں میں انوکھے رنگ و بو کے ذائقے تھے
تیرے چہرے کا نمک بھی شہد سے میٹھا لگا تھا
ساز ملکوتی صفا زادوں نے چھیڑا تھا کوئی پھر
پھر پس دیوار گریہ ایک میلا قہقہہ تھا
اس نے اپنے آسماں سے نور کی خیرات بانٹی
میری پیشانی کا روشن چاند ورنہ بجھ چکا تھا
سب کی دستار فضیلت میں ہزاروں پیچ و خم تھے
اور ہاتھوں میں اپاہج نیکیوں کا اک عصا تھا
- کتاب : جسم کا برتن سرد پڑا ہے (Pg. 90)
- Author : امیر حمزہ ثاقب
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2019)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.