میرؔ جی سے اگر ارادت ہے
دلچسپ معلومات
غزل کا مطلع میں ناسخؔ کے مشہور شعر ("شبہ ناسخ نہیں کچھ میر کی استادی میں ۔۔ آپ بے بہرہ ہیں جو معتقد میر نہیں") کی طرف اشارہ کرتا ہے
میرؔ جی سے اگر ارادت ہے
قول ناسخؔ کی کیا ضرورت ہے
کون پوچھے یہ میرؔ صاحب سے
ان دنوں کیا جنوں کی صورت ہے
چاند کس مہ جبیں کا پرتو ہے
رات کس زلف کی حکایت ہے
کیا ہوائے بہار تازہ ہے
کیا چراغ سرائے عبرت ہے
زندگی کس شجر کا سایہ ہے
موت کس دشت کی مسافت ہے
آگ میں کیا گل معانی ہیں
خاک میں کیا نمو کی صورت ہے
کیا پس پردۂ توہم ہے
کیا سر پردۂ حقیقت ہے
اس کہانی کا مرکزی کردار
آدمی ہے کہ آدمیت ہے
کاٹتا ہوں پہاڑ سے دن رات
مسئلہ عشق ہے کہ اجرت ہے
پھر محبت کا فلسفہ کیا ہے
یہ اگر سب لہو کی وحشت ہے
ایک تو جاں گسل ہے تنہائی
اس پہ ہم سائیگی قیامت ہے
اور جیسے اسے نہیں معلوم
شہر میں کیا ہماری عزت ہے
اس نے کیسے سمجھ لیا کہ مجھے
خواب میں جاگنے کی عادت ہے
گھر سے شاید نکل پڑے وہ بھی
آج کچھ دھوپ میں تمازت ہے
ہم یوں ہی مبتلا سے رہتے ہیں
یا کسی آنکھ کی مروت ہے
میرؔ بولے سنو رساؔ مرزا
عشق تو آج بھی صداقت ہے
اس جہان بلند و پست کے بیچ
کچھ اگر ہے تو اپنا قامت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.