مل گئی دل کو رہائی ہجر کی زنجیر سے
مل گئی دل کو رہائی ہجر کی زنجیر سے
آ گئے ہیں وہ اگرچہ آئے ہیں تاخیر سے
دیکھ کر ہنستے ہیں سارے بام و در رنگت مری
کرنے لگتی ہوں میں باتیں جب تری تصویر سے
میں نے سوچا تھا کسی پر کھل نہ پائیں گے مگر
راز میرے کھل گئے ہیں سب مری تحریر سے
کیا ملا تم کو وفا سے درد پیہم کے سوا
مدعا یہ پوچھنا ہے مجھ کو مل کر ہیر سے
گھر ملا کچھ کو کسی کو مال و دولت مل گئی
میرے سر دستار آئی باپ کی جاگیر سے
اک سبق ہم نے پڑھا ہے عشق کی تفسیر کا
غالبؔ و سوداؔ و مومنؔ اور دردؔ و میرؔ سے
اس سے باتیں کر کے مجھ کو بارہا ایسا لگا
جیسے باتیں کر رہی تھی میں کھلی شمشیر سے
جس سے ملنا ہی نہیں تھا اس سے ملنا کیوں لکھا
بس یہی شکوہ مجھے ہے کاتب تقدیر سے
ٹوٹتا ہو گھر کسی کا گر تمہارے خواب سے
ٹوٹنا بہتر ہے ایسے خواب کا تعبیر سے
ہر کوئی گریہ کناں ہے دیکھ کر رونا مرا
ہر طرف ہے درد میرے درد کی تاثیر سے
کرچیاں اتنی ہوئی ہیں میرے خوابوں کی سحرؔ
خون رستا ہے مسلسل اس دل نخچیر سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.