مل سکے گی اب بھی داد آبلہ پائی تو کیا
مل سکے گی اب بھی داد آبلہ پائی تو کیا
فاصلے کم ہو گئے منزل قریب آئی تو کیا
ہے وہی جبر اسیری اور وہی غم کا قفس
دل پہ بن آئی تو کیا یہ روح گھبرائی تو کیا
اپنی بے تابئ دل کا خود تماشا بن گئے
آپ کی محفل کے بنتے ہم تماشائی تو کیا
بات تو جب ہے کہ سارا گلستاں ہنسنے لگے
فصل گل میں چند پھولوں کی ہنسی آئی تو کیا
لاؤ ان بے کیفیوں ہی سے نکالیں راہ کیف
وقت اب لے گا کوئی پر کیف انگڑائی تو کیا
کم نگاہی نے اسے کچھ اور گہرا کر دیا
وہ چھپاتے ہی رہیں رنگ شناسائی تو کیا
پھر ذرا سی دیر میں چونکائے گا خواب سحر
آخر شب جاگنے کے بعد نیند آئی تو کیا
بیڑیاں وہم تعلق کی نئی پہنا گئے
دوست آ کر کاٹتے زنجیر تنہائی تو کیا
شورش افکار سے اعجازؔ داماندہ سہی
چھن سکے گی پھر بھی فکر و فن کی رعنائی تو کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.