ملا ہے اپنے ہونے کا نشاں اک
ملا ہے اپنے ہونے کا نشاں اک
سنی صدیوں پرانی داستاں اک
ہماری سوچ تو ملتی ہے کتنی
مگر کیوں کر نہیں اپنی زباں اک
مرا ہر اک یقیں جھٹلا رہا ہے
وہ جو مجھ میں مکیں ہے بد گماں اک
ہوئے ہیں بے معانی بال و پر اب
ملا نیچے زمیں کے آسماں اک
برے لوگوں سے ملواتا ہے مجھ کو
جتاتا ہے وہی اچھا یہاں اک
میری چپ سے بھی وہ جھنجھلا رہا ہے
خموشی کی بھی ہوتی ہے زباں اک
خدا کو بھی رکھیں گے دسترس میں
زمیں پر وہ بنا کے آسماں اک
نہ تیرے ہو سکے ہم نا ہی اپنے
رہی آدھی ادھوری داستاں اک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.