ملا کے ہاتھ مسرت کشید کی جائے
ملا کے ہاتھ مسرت کشید کی جائے
وہ سامنے نظر آئے تو عید کی جائے
جنون عشق کہاں ناپ تول جانے ہے
اگر ہوئی ہے محبت شدید کی جائے
وہاں تو امن کے سجدوں کی نور پاشی تھی
کہا تھا کس نے کہ مسجد شہید کی جائے
چلن وفا کا تمہاری سرشت میں ہی نہیں
تو کس امید پہ تم سے امید کی جائے
خلوص و پیار سے پتھر پگھلتے دیکھے ہیں
انا ہے دشمن جاناں مرید کی جائے
روایتوں کا بھی اپنا مزاج ہے فاروقؔ
غزل ضروری نہیں ہے جدید کی جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.