ملے جو تم سے ملا اک سرور کیا سمجھے
ملے جو تم سے ملا اک سرور کیا سمجھے
ہمارے دل کو ہوا ہے غرور کیا سمجھے
اسے یہ ضد کے تمہیں روز ملنے آنا ہے
تمہارا عذر دل ناصبور کیا سمجھے
ہمیں بھی شوق تو جلوہ گری کا تھا لیکن
ہمارے حصے میں موسیٰ نہ طور کیا سمجھے
اتارا جائے گا مجھ کو ضعیف ذہنوں پر
تھمائی جائے گی مجھ کو زبور کیا سمجھے
چھپا کے سینے میں اپنے تمہارا موم سا دل
کیا ہے آگ کا دریا عبور کیا سمجھے
مرض انا کا تمہیں لگ گیا ابھی لیکن
ہمیں بھی ڈھونڈو گے اک دن ضرور کیا سمجھے
تمہاری دید نے بخشی نظر کو تابانی
بسا ہے چاروں طرف نور نور کیا سمجھے
ہمارے یار کا تکیہ کلام ہے عارفؔ
ہر ایک بات پہ کہنا حضور کیا سمجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.