ملے کیوں کر سکوں جب تک یہ تنہائی نہیں جاتی
ملے کیوں کر سکوں جب تک یہ تنہائی نہیں جاتی
وہ الجھن ہے طبیعت میں کہ سلجھائی نہیں جاتی
یہ کیسا خوف کیوں بیداد فرمائی نہیں جاتی
اجی بھولو قیامت کو ابھی آئی نہیں جاتی
تعجب ہے نمکداں پر نمکداں ہو چکے خالی
بلا کے زخم دل ٹھہرے کہ گہرائی نہیں جاتی
سمجھ لے یا تو کچھ میری سمجھ کا پھیر ہے ناصح
تجھی سے یا مرے مطلب کی سمجھائی نہیں جاتی
جو کچھ بیتی شب غم مجھ پہ سو بیتی چلو چھوڑو
گئی گزری کہانی مجھ سے دہرائی نہیں جاتی
رکیں اشک مسلسل چشم پر نم سے ارے توبہ
یہ بدلی خود برس پڑتی ہے برسائی نہیں جاتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.