ملنا نہ ملنا ایک بہانہ ہے اور بس
ملنا نہ ملنا ایک بہانہ ہے اور بس
تم سچ ہو باقی جو ہے فسانہ ہے اور بس
لوگوں کو راستے کی ضرورت ہے اور مجھے
اک سنگ رہ گزر کو ہٹانا ہے اور بس
مصروفیت زیادہ نہیں ہے مری یہاں
مٹی سے اک چراغ بنانا ہے اور بس
سوئے ہوئے تو جاگ ہی جائیں گے ایک دن
جو جاگتے ہیں ان کو جگانا ہے اور بس
تم وہ نہیں ہو جن سے وفا کی امید ہے
تم سے مری مراد زمانہ ہے اور بس
پھولوں کو ڈھونڈتا ہوا پھرتا ہوں باغ میں
باد صبا کو کام دلانا ہے اور بس
آب و ہوا تو یوں بھی مرا مسئلہ نہیں
مجھ کو تو اک درخت لگانا ہے اور بس
نیندوں کا رت جگوں سے الجھنا یوں ہی نہیں
اک خواب رائیگاں کو بچانا ہے اور بس
اک وعدہ جو کیا ہی نہیں ہے ابھی سلیمؔ
مجھ کو وہی تو وعدہ نبھانا ہے اور بس
- کتاب : duniya aarzoo se kam hai (Pg. 57)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.