ملنے کی مجھے یار سے فرصت نہیں ملتی
ملنے کی مجھے یار سے فرصت نہیں ملتی
اے مرگ ٹھہر جا ابھی رخصت نہیں ملتی
کچھ پیرہن یار کی نکہت نہیں ملتی
یوسف کی ہمیں اپنے بشارت نہیں ملتی
زردار سے دنیا کی بضاعت نہیں ملتی
گنجینہ خورشید سے دولت نہیں ملتی
ہے ہر نفس اک در نفیس اے دل ناداں
یہ جنس گراں ہے کہ بہ قیمت نہیں ملتی
یا ہم سے تھے ہر پل تری چتون کے اشارے
یا آنکھ بھی اب محو شرارت نہیں ملتی
ہم دل پہ لیے داغ جنوں جاتے ہیں آخر
کچھ اور نشانی دم رخصت نہیں ملتی
زنجیر ترے ہاتھ سے پہنوں گا گلے میں
گر سلسلۂ زلف میں بیعت نہیں ملتی
مت جان دے اس بت پہ دلا بہر خدا تو
کیا تجھ کو کوئی دوسری صورت نہیں ملتی
اب آنکھ ملانے کا نہیں یار سے یارا
دل اس سے ملا جس سے طبیعت نہیں ملتی
ان سے جو کسی نے کہا کشتے کو تمہارے
اس کوچے میں بھی جا پئے تربت نہیں ملتی
ہو کر وہ خفا کہنے لگے مردے تو در گور
زندوں کو یہاں جائے اقامت نہیں ملتی
اس غیرت عیسی کے جو غم میں ہوں گرفتار
دولہؔ مجھے مرنے کی بھی فرصت نہیں ملتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.