منتوں سے بھی نہ وہ حور شمائل آیا
منتوں سے بھی نہ وہ حور شمائل آیا
کس جگہ آنکھ لڑی ہائے کہاں دل آیا
ہم نہ کہتے تھے نہ کر عشق پشیماں ہوگا
جو کیا تو نے وہ آگے ترے اے دل آیا
قہقہے قلقل مینا نے لگائے کیا کیا
مجھ کو مستی میں جو رونا سر محفل آیا
قتل کی سن کے خبر عید منائی میں نے
آج جس سے مجھے ملنا تھا گلے مل آیا
تا دم مرگ نہ ہو وہ مرے دشمن کو نصیب
جو مزا مجھ کو الٰہی دم بسمل آیا
مرقد قیس پر اب تک بھی تو خار صحرا
انگلیوں سے یہ بتاتے ہیں وہ محمل آیا
گنج قاروں کے سوا بھی ہے عدم میں سب کچھ
ہائے دنیا میں نہ اس ملک کا حاصل آیا
جس نے کچھ ہوش سنبھالا وہ جواں قتل ہوا
عہد پیری نہ ترے عہد میں قاتل آیا
دین و دنیا سے گیا تو یہ سمجھ لے اے داغؔ
غضب آیا اگر اس بت پہ ترا دل آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.