Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو

میر تقی میر

فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو

میر تقی میر

MORE BYمیر تقی میر

    فلک نے گر کیا رخصت مجھے سیر بیاباں کو

    نکالا سر سے میرے جائے مو خار مغیلاں کو

    وہ ظالم بھی تو سمجھے کہہ رکھا ہے ہم نے یاراں کو

    کہ گورستان سے گاڑیں جدا ہم اہل ہجراں کو

    نہیں یہ بید مجنوں گردش گردون گرداں نے

    بنایا ہے شجر کیا جانیے کس مو پریشاں کو

    ہوئے تھے جیسے مر جاتے پر اب تو سخت حسرت ہے

    کیا دشوار نادانی سے ہم نے کار آساں کو

    کہیں نسل آدمی کی اٹھ نہ جاوے اس زمانے میں

    کہ موتی آب حیواں جانتے ہیں آب انساں کو

    تجھے گر چشم عبرت ہے تو آندھی اور بگولے سے

    تماشا کر غبار افشانی خاک عزیزاں کو

    لباس مرد میداں جوہر ذاتی کفایت ہے

    نہیں پروئے پوشش معرکے میں تیغ عریاں کو

    ہوائے ابر میں گرمی نہیں جو تو نہ ہو ساقی

    دم افسردہ کر دے منجمد رشحات باراں کو

    جلیں ہیں کب کی مژگاں آنسوؤں کی گرم جوشی سے

    اس آب چشم کی جوشش نے آتش دی نیستاں کو

    وہ کافر عشق کا ہے دل کہ میری بھی رگ جاں تک

    سدا زنار ہی تسبیح ہے اس نا مسلماں کو

    غرور ناز سے آنکھیں نہ کھولیں اس جفا جو نے

    ملا پاؤں تلے جب تک نہ چشم صد غزالاں کو

    نہ سی چشم طمع خوان فلک پر خام دستی سے

    کہ جام خون دے ہے ہر سحر یہ اپنے مہماں کو

    زبس صرف جنوں میرے ہوا آہن عجب مت کر

    نہ ہو گر حلقۂ در خانۂ زنجیر سازاں کو

    بنے نا واقف شادی اگر ہم بزم عشرت میں

    دہان زخم دل سمجھے جو دیکھا روئے خنداں کو

    نہیں ریگ رواں مجنوں کے دل کی بے قراری نے

    کیا ہے مضطرب ہر ذرۂ گرد بیاباں کو

    کسی کے واسطے رسوائے عالم ہو پہ جی میں رکھ

    کہ مارا جائے جو ظاہر کرے اس راز پنہاں کو

    گری پڑتی ہے بجلی ہی تبھی سے خرمن گل پر

    ٹک اک ہنس میرے رونے پر کہ دیکھے تیرے دنداں کو

    غرور ناز قاتل کو لیے جا ہے کوئی پوچھے

    چلا تو سونپ کر کس کے تئیں اس صید بے جاں کو

    وہ تخم سوختہ تھے ہم کہ سر سبزی نہ کی حاصل

    ملایا خاک میں دانہ نمط حسرت سے دہقاں کو

    ہوا ہوں غنچۂ پژمردہ آخر فصل کا تجھ بن

    نہ دے برباد حسرت کشتۂ سر در گریباں کو

    غم و اندوہ و بیتابی الم بے طاقتی حرماں

    کہوں اے ہم نشیں تا چند غم ہاے فراواں کو

    گل و سرو و سمن گر جائیں گے مت سیر گلشن کر

    ملا مت خاک میں ان باغ کے رعنا جواناں کو

    بہت روئے جو ہم یہ آستیں رکھ منہ پہ اے بجلی

    نہ چشم کم سے دیکھ اس یادگار چشم گریاں کو

    مزاج اس وقت ہے اک مطلع تازہ پہ کچھ مائل

    کہ بے فکر سخن بنتی نہیں ہرگز سخنداں کو

    مأخذ :
    • کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0377

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے