کل میرؔ نے کیا کیا کی مے کے لیے بیتابی
کل میرؔ نے کیا کیا کی مے کے لیے بیتابی
آخر کو گرو رکھا سجادۂ محرابی
جاگا ہے کہیں وہ بھی شب مرتکب مے ہو
یہ بات سجھاتی ہے ان آنکھوں کی بے خوابی
کیا شہر میں گنجائش مجھ بے سر و پا کو ہو
اب بڑھ گئے ہیں میرے اسباب کم اسبابی
دن رات مری چھاتی جلتی ہے محبت میں
کیا اور نہ تھی جاگا یہ آگ جو یاں دابی
سو ملک پھرا لیکن پائی نہ وفا اک جا
جی کھا گئی ہے میرا اس جنس کی نایابی
خوں بستہ نہ کیوں پلکیں ہر لحظہ رہیں میری
جاتے نہیں آنکھوں سے لب یار کے عنابی
جنگل ہی ہرے تنہا رونے سے نہیں میرے
کوہوں کی کمر تک بھی جا پہنچی ہے سیرابی
تھے ماہ وشاں کل جو ان کوٹھوں پہ جلوے میں
ہے خاک سے آج ان کی ہر صحن میں مہتابی
کل میرؔ جو یاں آیا طور اس کا بہت بھایا
وہ خشک لبی تس پر جامہ گلے میں آبی
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0438
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.