سنا ہے حال ترے کشتگاں بیچاروں کا
سنا ہے حال ترے کشتگاں بیچاروں کا
ہوا نہ گور گڑھا ان ستم کے ماروں کا
ہزار رنگ کھلے گل چمن کے ہیں شاہد
کہ روزگار کے سر خون ہے ہزاروں کا
ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں
نکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا
عرق فشانی سے اس زلف کی ہراساں ہوں
بھلا نہیں ہے بہت ٹوٹنا بھی تاروں کا
علاج کرتے ہیں سودائے عشق کا میرے
خلل پذیر ہوا ہے دماغ یاروں کا
تری ہی زلف کو محشر میں ہم دکھا دیں گے
جو کوئی مانگے گا نامہ سیاہ کاروں کا
خراش سینۂ عاشق بھی دل کو لگ جائے
عجب طرح کا ہے فرقہ یہ دل فگاروں کا
نگاہ مست کے مارے تری خراب ہیں شوخ
نہ ٹھور ہے نہ ٹھکانا ہے ہوشیاروں کا
کریں ہیں دعویٰ خوش چشمی آہوان دشت
ٹک ایک دیکھنے چل ملک ان گنواروں کا
تڑپ کے مرنے سے دل کے کہ مغفرت ہو اسے
جہاں میں کچھ تو رہا نام بے قراروں کا
تڑپ کے خرمن گل پر کبھی گر اے بجلی
جلانا کیا ہے مرے آشیاں کے خاروں کا
تمہیں تو زہد و ورع پر بہت ہے اپنے غرور
خدا ہے شیخ جی ہم بھی گناہ گاروں کا
اٹھے ہے گرد کی جا نالہ گور سے اس کی
غبار میرؔ بھی عاشق ہے نے سواروں کا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0040
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.