اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی
اب ضعف سے ڈھہتا ہے بیتابی شتابی کی
اس دل کے تڑپنے نے کیا خانہ خرابی کی
ان درس گہوں میں وہ آیا نہ نظر ہم کو
کیا نقل کروں خوبی اس چہرہ کتابی کی
بھنتے ہیں دل اک جانب سکتے ہیں جگر یکسو
ہے مجلس مشتاقاں دکان کبابی کی
تلخ اس لب میگوں سے سب سنتے ہیں کس خاطر
تہہ دار نہیں ہوتی گفتار شرابی کی
یک بو کشی بلبل ہے موجب صد مستی
پر زور ہے کیا دارو غنچے کی گلابی کی
اب سوز محبت سے سارے جو پھپھولے ہیں
ہے شکل مرے دل کی سب شیشہ حبابی کی
نش مردہ مرے منہ سے یاں حرف نہیں نکلا
جو بات کہ میں نے کی سو میرؔ حسابی کی
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0454
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.