عشق میں نے خوف و خطر چاہیے
عشق میں نے خوف و خطر چاہیے
جان کے دینے کو جگر چاہیے
قابل آغوش ستم دیدگاں
اشک سا پاکیزہ گہر چاہیے
حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے
اٹھتے پلک ایک پہر چاہیے
کم ہے شناسائے زر داغ دل
اس کے پرکھنے کو نظر چاہیے
سینکڑوں مرتے ہیں سدا پھر بھی یاں
واقعہ اک شام و سحر چاہیے
عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس
داغ بہ دل دست بسر چاہیے
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے
جیسے جرس پارہ گلو کیا کروں
نالہ و افغاں میں اثر چاہیے
خوف قیامت کا یہی ہے کہ میرؔ
ہم کو جیا بار دگر چاہیے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0484
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.