یا رب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے
یا رب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے
مر جائے ولے اس کو یہ آزار نہ ہووے
زنداں میں پھنسے طوق پڑے قید میں مر جائے
پر دام محبت میں گرفتار نہ ہووے
اس واسطے کانپوں ہوں کہ ہے آہ نپٹ سرد
یہ باؤ کلیجے کے کہیں پار نہ ہووے
صد نالۂ جانکاہ ہیں وابستہ چمن سے
کوئی بال شکستہ پس دیوار نہ ہووے
پژمردہ بہت ہے گل گلزار ہمارا
شرمندۂ یک گوشۂ دستار نہ ہووے
مانگے ہے دعا خلق تجھے دیکھ کے ظالم
یا رب کسو کو اس سے سروکار نہ ہووے
کس شکل سے احوال کہوں اب میں الٰہی
صورت سے مری جس میں وہ بیزار نہ ہووے
ہوں دوست جو کہتا ہوں سن اے جان کے دشمن
بہتر تو تجھے ترک ہے تا خوار نہ ہووے
خوباں برے ہوتے ہیں اگرچہ ہیں نکورو
بے جرم کہیں ان کا گنہ گار نہ ہووے
باندھے نہ پھرے خون پر اپنی تو کمر کو
یہ جان سبک تن پہ ترے بار نہ ہووے
چلتا ہے رہ عشق ہی اس پر بھی چلے تو
پر ایک قدم چل کہیں زنہار نہ ہووے
صحرائے محبت ہے قدم دیکھ کے رکھ میرؔ
یہ سیر سر کوچہ و بازار نہ ہووے
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0507
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.