سمجھے تھے میرؔ ہم کہ یہ ناسور کم ہوا
سمجھے تھے میرؔ ہم کہ یہ ناسور کم ہوا
پھر ان دنوں میں دیدۂ خوں بار نم ہوا
آئے برنگ ابر عرق ناک تم ادھر
حیران ہوں کہ آج کدھر کو کرم ہوا
تجھ بن شراب پی کے موئے سب ترے خراب
ساقی بغیر تیرے انہیں جام سم ہوا
کافر ہمارے دل کی نہ پوچھ اپنے عشق میں
بیت الحرام تھا سو وہ بیت الصنم ہوا
خانہ خراب کس کا کیا تیری چشم نے
تھا کون یوں جسے تو نصیب ایک دم ہوا
تلوار کس کے خون میں سر ڈوب ہے تری
یہ کس اجل رسیدہ کے گھر پر ستم ہوا
آئی نظر جو گور سلیماں کی ایک روز
کوچے پر اس مزار کے تھا یہ رقم ہوا
کاے سرکشاں جہان میں کھینچا تھا میں بھی سر
پایان کار مور کی خاک قدم ہوا
افسوس کی بھی چشم تھی ان سے خلاف عقل
بار علاقہ سے تو عبث پشت خم ہوا
اہل جہاں ہیں سارے ترے جیتے جی تلک
پوچھیں گے بھی نہ بات جہاں تو عدم ہوا
کیا کیا عزیز دوست ملے میرؔ خاک میں
نادان یاں کسو کا کسو کو بھی غم ہوا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0062
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.