پل میں جہاں کو دیکھتے میرے ڈبو چکا
پل میں جہاں کو دیکھتے میرے ڈبو چکا
اک وقت میں یہ دیدہ بھی طوفان رو چکا
افسوس میرے مردے پر اتنا نہ کر کہ اب
پچھتانا یوں ہی سا ہے جو ہونا تھا ہو چکا
لگتی نہیں پلک سے پلک انتظار میں
آنکھیں اگر یہی ہیں تو بھر نیند سو چکا
یک چشمک پیالہ ہے ساقی بہار عمر
جھپکی لگی کہ دور یہ آخر ہی ہو چکا
ممکن نہیں کہ گل کرے ویسی شگفتگی
اس سرزمیں میں تخم محبت میں بو چکا
پایا نہ دل بہایا ہوا سیل اشک کا
میں پنجۂ مژہ سے سمندر بلو چکا
ہر صبح حادثے سے یہ کہتا ہے آسماں
دے جام خون میرؔ کو گر منہ وہ دھو چکا
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0100
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.