اے گل نو دمیدہ کے مانند
اے گل نو دمیدہ کے مانند
ہے تو کس آفریدہ کے مانند
ہم امید وفا پہ تیری ہوئے
غنچۂ دیر چیدہ کے مانند
خاک کو میری سیر کر کے پھرا
وہ غزال رمیدہ کے مانند
سر اٹھاتے ہی ہو گئے پامال
سبزۂ نو دمیدہ کے مانند
نہ کٹے رات ہجر کی جو نہ ہو
نالہ تیغ کشیدہ کے مانند
ہم گرفتار حال ہیں اپنے
طائر پر بریدہ کے مانند
دل تڑپتا ہے اشک خونیں میں
صید در خوں تپیدہ کے مانند
تجھ سے یوسف کو کیونکے نسبت دیں
کب شنیدہ ہو دیدہ کے مانند
میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے لیک
بندۂ زر خریدہ کے مانند
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0201
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.