مرا حریف کوئی ہے کہاں اکیلا ہوں
مرا حریف کوئی ہے کہاں اکیلا ہوں
حریص لذت لفظ و بیاں اکیلا ہوں
حصار جسم سے باہر ہے کون میرے سوا
سنبھالے ہاتھوں پہ میں نقد جاں اکیلا ہوں
میں ایک سنگ ہدایت کھڑا ہوں صدیوں سے
یہ غم نہیں کہ پس کارواں اکیلا ہوں
تمام لوگ تو بے حس ہیں سنگ کی صورت
میں اپنے عہد کا اک نوحہ خواں اکیلا ہوں
سب اپنے چہرے پہ تنقید خود ہی کرتے ہیں
میں آئنے کی طرح بے زباں اکیلا ہوں
نہ اب وہ بزم سماعت نہ اب وہ محفل شب
سنا ہوا سخن رائیگاں اکیلا ہوں
بہت ہے میرے لئے یاد رفتگاں انورؔ
اکیلا ہوتے ہوئے بھی کہاں اکیلا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.