مرا جیون ہے خود میری کہانی سے بھی آگے کا
مرا جیون ہے خود میری کہانی سے بھی آگے کا
فسانہ ہوں حیات جاودانی سے بھی آگے کا
زمیں کی قید سے اب تک رہائی مل نہیں پائی
سفر رکھا ہے سقف آسمانی سے بھی آگے کا
نہ جانے کیا ہوا کہ پھر کوئی بسنے نہیں پایا
یہ دل ہے اک مکاں تیری نشانی سے بھی آگے کا
کسی کی موت بھی متروک کر سکتی نہیں اس کو
محبت سلسلہ ہے زندگانی سے بھی آگے کا
خموشی کی زباں کا ترجمہ بھی ہو رہا ہوتا
اگر ابلاغ ہوتا ترجمانی سے بھی آگے کا
بہت سے قرض ہیں اندوہ انسانی کے بھی تم پر
کبھی سوچا کرو سوز نہانی سے بھی آگے کا
تمہاری کال آتی ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہوں
نشہ رہتا ہے شام ارغوانی سے بھی آگے کا
پروں میں باندھ رکھی ہے مسافت خود کو پانے کی
ارادہ ہے فلک کی میہمانی سے بھی آگے کا
ظفرؔ حد نظر تک کی بصارت کا فسوں توڑو
تمہیں تو سوچنا ہے لا مکانی سے بھی آگے کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.