مرا کیا ہے مری ہر چیز تو مانگی ہوئی ہے
مرا کیا ہے مری ہر چیز تو مانگی ہوئی ہے
یہ عزت تک مرے کچھ دوستوں کی دی ہوئی ہے
دھواں اٹھنے نہ لگ جائے چراغ دل بجھا دو
فضائے دیدہ و دل پر نمی ٹھہری ہوئی ہے
اندھیروں کی نگہبانی میں ہیں سارے اجالے
فصیل شہر پر جو روشنی بکھری ہوئی ہے
نہ جانے کون تھا جو رات بھر رویا لپٹ کر
اداسی اب بھی اس دیوار سے لپٹی ہوئی ہے
یہ دنیا یوں مجھے روتے ہوئے ملتی ہے اکثر
کہ جیسے یہ بھی اپنے یار سے بچھڑی ہوئی ہے
سکوں سے جذب کر لو ریگزاروں کی خموشی
ہوائے دشت بس کچھ دیر کو ٹھہری ہوئی ہے
اجازت کس لئے اے موت لوں تیرے لئے میں
مرے کس فیصلے پر زندگی رازی ہوئی ہے
یہ ویرانہ مرا ہے اور باقی سب ہے اس کا
یہ دنیا اس نے شرط عشق پر بانٹی ہوئی ہے
نکلنا ہو تجھے اے روح تو جلدی نکل جا
کہ میرے جسم کی بستی ابھی سوئی ہوئی ہے
ترے اندر جدا ہو کچھ تو مجھ کو وہ دکھا تو
یہ جو باہر کی دنیا ہے مری دیکھی ہوئی ہے
- کتاب : آوازوں کا روشن دان (Pg. 111)
- Author : کلدیپ کمار
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2019)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.