مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
مرے بدن میں پگھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
اک اور ذات میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
مری صدا نہ سہی ہاں مرا لہو نہ سہی
یہ موج موج اچھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
کہیں نہ آخری جھونکا ہو مٹتے رشتوں کا
یہ درمیاں سے نکلتا ہوا سا کچھ تو ہے
نہیں ہے آنکھ کے صحرا میں ایک بوند سراب
مگر یہ رنگ بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
جو میرے واسطے کل زہر بن کے نکلے گا
ترے لبوں پہ سنبھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
یہ عکس پیکر صد لمس ہے نہیں نہ سہی
کسی خیال میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے
بدن کو توڑ کے باہر نکلنا چاہتا ہے
یہ کچھ تو ہے یہ مچلتا ہوا سا کچھ تو ہے
کسی کے واسطے ہوگا پیام یا کوئی قہر
ہمارے سر سے یہ ٹلتا ہوا سا کچھ تو ہے
یہ میں نہیں نہ سہی اپنے سرد بستر پر
یہ کروٹیں سی بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
وہ کچھ تو تھا میں سہارا جسے سمجھتا تھا
یہ میرے ساتھ پھسلتا ہوا سا کچھ تو ہے
بکھر رہا ہے فضا میں یہ دود روشنی کا
ادھر پہاڑ کے جلتا ہوا سا کچھ تو ہے
مرے وجود سے جو کٹ رہا ہے گام بہ گام
یہ اپنی راہ بدلتا ہوا سا کچھ تو ہے
جو چاٹتا چلا جاتا ہے مجھ کو اے بانیؔ
یہ آستین میں پلتا ہوا سا کچھ تو ہے
- کتاب : Kulliyat-e-bani (Pg. Bani Manchanda)
- مطبع : Maktaba Tehreek, Ansari Market,Daryaganj,New Delhi (1971)
- اشاعت : 1971
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.