مرے بننے سے کیا کیا بن رہا تھا
مرے بننے سے کیا کیا بن رہا تھا
میں بننے کو اکیلا بن رہا تھا
اور اب جب تن چکا تو شرم آئی
کئی دن سے یہ پردہ بن رہا تھا
زیادہ ہو رہی تھیں دو سرائیں
میں پھر محفل کا حصہ بن رہا تھا
قیامت اور قیامت پر قیامت
میں خوش تھا میرا حلقہ بن رہا تھا
فلک مٹ سا گیا حد نظر تک
ستارہ ہی اک ایسا بن رہا تھا
نشیب شہر تھا یوں روز افزوں
میان شہر زینہ بن رہا تھا
خرابی میں یہ خم آیا اچانک
خرابہ اچھا خاصا بن رہا تھا
میں آدھا جسم جا بیٹھا وہیں پر
جہاں باقی کا آدھا بن رہا تھا
اور اب جب کچھ نہ بن پایا تو بولے
یہی تو تھا جو کب کا بن رہا تھا
اداکاری نمو داری تھی یکسر
میں ناموجود کتنا بن رہا تھا
ٹھہر جانا ضرورت سے تھا یعنی
گزر جانے کا لمحہ بن رہا تھا
مجھے آسان تھا ہونا نہ ہونا
زمانہ مٹ رہا تھا بن رہا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.