مرے گھر کے لوگ جو گھر مجھی کو سپرد کر کے چلے گئے
مرے گھر کے لوگ جو گھر مجھی کو سپرد کر کے چلے گئے
مرا بار غم نہ اٹھا سکے تو مجھی پہ دھر کے چلے گئے
کبھی گھر ہمارے وہ آ گئے تو لکھا نصیب کا دیکھیے
کوئی بات ان سے نہ ہو سکی وہ ذرا ٹھہر کے چلے گئے
جہاں لطف سیر نہ پا سکے نہ جہاں کا حال بتا سکے
جہاں زندگی میں نہ جا سکے وہاں لوگ مر کے چلے گئے
کوئی بات ان سے کرے گا کیا وہ جواب لے کے پھرے گا کیا
انہیں دیکھ کر جو حواس ہی مرے نامہ بر کے چلے گئے
ہے سرائے دہر عجب مکاں جو مسافر آ کے رہے یہاں
کبھی تین دن کبھی چار دن وہ ٹھہر ٹھہر کے چلے گئے
نہیں آج رنگ وہ خلق کا کبھی یہ زمانے کا حال تھا
ہمیں سر پہ اپنے بٹھا لیا جو کسی بشر کے چلے گئے
ہے عدم کا سخت وہ مرحلہ جہاں اپنا اپنا ہے راستہ
وہ سفر نہیں یہ جو ساتھ ہم کسی ہم سفر کے چلے گئے
ترے پاسباں سے ترا پتہ کبھی ہم نے پوچھا تو یہ ملا
کہ مکاں سے وہ سر شام ہی کہیں بن سنور کے چلے گئے
انہیں بزم غیر میں دیکھ کر کہیں کیا رشیدؔ کہ کیا ہوا
کبھی ضبط کر کے ٹھہر گئے کبھی آہ بھر کے چلے گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.