مرے ہم رقص سائے کو بالآخر یونہی ڈھلنا تھا
مرے ہم رقص سائے کو بالآخر یونہی ڈھلنا تھا
کوئی موسم نہیں رکتا سو موسم کو بدلنا تھا
تقاضا مصلحت کا تھا ہوا سے دوستی کر لیں
چراغوں کو اجالے تک یونہی ہر طور جلنا تھا
اسے تو یہ اجازت تھی وہ جب چاہے پلٹ جائے
سفر میرا تو باقی تھا مجھے تو یونہی چلنا تھا
تلاطم میں بہا کر جو مری ہستی کو لے جاتی
اسی موج تمنا سے مجھے پہلے سنبھلنا تھا
ہمیں بھی سبز رنگت کا وہ پیراہن عطا ہوتا
ہماری آستینوں میں اگر سانپوں کو پلنا تھا
ہمیشہ اپنے کاسے میں دعاؤں کی طلب رکھی
دعاؤں کے وسیلے سے برا ہر وقت ٹلنا تھا
بتایا تھا کہ یہ جوہر بہت نایاب ہے جاناں
اسے کھو کر تمہیں یونہی فقط ہاتھوں کو ملنا تھا
شب غم کی طوالت سے نہ گھبرانا فرحؔ آخر
یہ سورج ڈھل بھی جائے تو اسے پھر سے نکلنا تھا
- کتاب : Koi bhi rut ho (Pg. 173)
- Author : Farah iqbal
- مطبع : Alhamd Publications (2011)
- اشاعت : 2011
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.